نئی
كتابیں
نام کتاب : تفسیر ہدایت القرآن
مفسرین : (۱)
حضرت مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمی
(۲)
حضرت مولانا مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری
شیخ الحدیث وصدرالمدرسین
دارالعلوم دیوبند
ضخامت : آٹھ
جلدیں قیمت: ۱۶۰۰
روپے
ناشر: مکتبہ حجاز، دیوبند 9997866990
تعارف
نگار: مولانا اشتیاق احمد قاسمی
ریسرچ
اسکالر شعبہٴ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،
حیدرآباد
قرآن
مجید اللہ رب العالمین کا آخری پیغام ہے، اس کا مخاطب
ہرانسان ہے، اس کے مضامین کا ایک سِرا عرش سے ملا ہوا ہے تو دوسرا فرش
سے، عرش والے مضامین کو فرش پر لانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں،
ہر مفسر اپنی حد تک قرآن پاک کو سمجھاتا ہے کسی کا انداز بیان
قبولِ عام حاصل کرتا ہے تو کسی کا مضمون خواص تک محدود ہوکر رہ جاتا ہے، کامیاب
مفسر وہ ہے جس کی بات سب کو سمجھ میں آ ئے، جو عرشی (مشکل) مضامین
کو بھی فرشی (آسان) بناکر پیش کرے۔ ”تفسیر ہدایت
القرآن“ کے مفسر کو اللہ رب العالمین نے اپنی آیات اور اپنے
محبوب کی سنتوں کی تشریح و تبیین کے لیے
منتخب فرمایا ہے، مشکل مضامین کو آسان کرکے پیش کرنا آپ کا امتیازی
وصف ہے، اس تفسیر میں بھی آپ کا انداز بیان نہایت ہی
شستہ اور شگفتہ ہے، الفاظ و تعبیرات کا انتخاب پُرکشش ہے، پہلے مفردات کا
کالم بناتے ہیں، ہر لفظ کے سامنے دوسرے کالم میں اس کا معنی
لکھتے ہیں پھر ربط آیات لکھ کر، عنوان لگاکر، رواں دواں اور سُبک تعبیرات
میں تفسیر سمجھاتے ہیں پھر آیات کا بامحاورہ ترجمہ کرتے ہیں،
مغلق کی وضاحت؛ مشکل کو آسان اور غیرمربوط جملوں کو مربوط کرنے کے لیے
جملوں کے درمیان قوسین میں اضافہ بھی کرتے ہیں اور
بعض جگہوں پر اخیرمیں کوئی ”قولِ زریں“ لکھ دیتے ہیں،
اس ایک جملہ میں آیات کے مضمون کی روح ہوتی ہے، قاری
اس جملہ کو مکرر پڑھنے پر مجبور ہوتا ہے۔
کسی بھی سورہ کے شروع کرتے
ہوئے پہلے سورہ کا نام، نمبر شمار، نزول کا نمبر، مکی اورمدنی کی
صراحت، رکوع اور آیات کی تعداد لکھتے ہیں پھر پوری سورت میں
پھیلے ہوئے مضامین کا خلاصہ تحریر فرماتے ہیں؛ تاکہ قاری
پہلے بہ یک نظر ان مضامین سے اجمالی طور پر واقف ہوجائے، پھر
شانِ نزول لکھ کر ایک مضمون کی آیات لکھتے ہیں؛ تاکہ قاری
تلاوت کرکے تفسیر سمجھنے کا موڈ بنائے، پھر مفردات کے ساتھ کچھ حواشی
تحریر فرماتے ہیں جن میں لغات، اعراب اور ترکیب کی
وضاحت ہوتی ہے، یہ حواشی طلبہ اور علماء کے لیے ہیں؛
جن میں ہر اس پیچیدگی کا حل ہوتا ہے جو طالب علم کے ذہن میں
آتی ہے، تفسیریں تو بہت ہیں؛ مگراس انداز کا مختصرحاشیہ
جس میں اس خاص پہلو کو ذہن میں رکھا گیا ہو تبصرہ نگار کی
نگاہ میں نہیں ہے، حیدرآباد میں جلالین شریف
پڑھاتے ہوے اور دارالعلوم دیوبند میں ترجمہٴ قرآن پڑھاتے ہوے اس
کی اہمیت کا اندازہ ہوا، مطالعہ کے بعد طبیعت پھڑک اٹھتی
ہے اور بے اختیار زبان مفسر کو دعا دینے لگتی ہے اور لوحِ تفسیر
پر لکھا ہوا جملہ برمحل صادق آنے لگتا ہے کہ ”ان شاء اللہ یہ تفسیر آپ
کوقرآن کریم سے بہت قریب کردے گی“۔
اس تفسیرکو اولاً حضرت مولانا
محمدعثمان کاشف الہاشمی رحمة اللہ علیہ نے شروع فرمایا تھا،
موصوف کا اپنایا ہوا نہج عمدہ تھا، انھوں نے عوام کو پیشِ نظر رکھ کر
تفسیر لکھی تھی، تفسیر میں تذکیری پہلو
غالب تھا، لکھ کر پہلے اپنے احباب خصوصاً حضرت مولانا ریاست علی بجنوری
اور حضرت مولانا لقمان الحق فاروقی رحمہما اللہ کو دکھاتے؛ تاکہ اگر کوئی
غلطی ہو تو نشاندہی فرمائیں اور کبھی حضرت مولانا فخرالدین
احمد مرادآبادی شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند
کو بھی پیش فرماتے اوراطمینان کے بعدکتابت اور طباعت کے مرحلے
سے گزرتی، شروع میں حضرت کاشف الہاشمی نے احکامات کی آیات میں یہ اسلوب اپنایا
تھا کہ چاروں مسلک کے دلائل سرسری طور پر لکھ دیتے، اُن میں ترجیح
کی صورت اختیار نہ فرماتے تھے، جب حضرت مولانا فخرالدین صاحب نے ملاحظہ فرمایا
تو اس جانب توجہ دلائی کہ ”اس طرح قاری تذبذب کا شکار ہوگا، آپ ایسا
نہ کریں“؛ جب یہ بات حضرت کاشف صاحب نے سنی تو آب دیدہ
ہوگئے اور فرمایا: ”میرا ذہن اس طرف نہیں گیا تھا، میں
سمجھتا تھا کہ قرآن سب کا مستدل ہے؛ اس لیے اس پہلو کو نظر انداز کردیا
تھا، اب اس کا لحاظ بھی کروں گا“۔ غرض یہ کہ تفسیر لکھی
جاتی رہی اور ایک ایک پارہ ”مکتبہ حجاز“ سے چھپتا رہا، اس
کے مالک حضرت مولانا قاضی انوارالٰہی صاحب مدظلہ العالی
(فاضل دیوبند) تھے، شروع سے نویں پارے تک اورآخری پارئہ عم کی
تفسیر مکمل ہوئی، اس کے بعد کام موقوف ہوگیا، مفسر مرحوم پر
فالج کا حملہ ہوا اور وہ اپنے وطن راجوپورمیں مستقل طور پر رہنے لگے۔
پھر حضرت قاضی صاحب کے اصرار پر
حضرت الاستاذ مولانامفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہ العالی
نے کام شروع فرمایا اور آپ نے مکمل طور پر اپنے پیش رو مفسر کے اسلوب
کی رعایت فرمائی؛ لیکن کام کی رفتار سست تھی؛
تا آں کہ حضرت قاضی صاحب نے حضرت مفتی صاحب کو اپنا کتب خانہ بیچ
دیا، حضرت مفتی صاحب مدظلہ نے کام کو آگے بڑھایا، اسی کے
لیے گھر میں کمپیوٹر اور اپنے فرزند مولانا حسن احمدقاسمی
کو آپریٹر کے طور پر رکھا، یہ کام چلتا رہا؛ لیکن سورہٴ
الموٴمنون (پانچویں جلد) پر جاکر رکھ گیا۔ یہ وقفہٴ
طویلہ اتنا لمبا رہا کہ اس درمیان میں حجة اللہ البالغہ کی
شرح پانچ جلدوں میں، ترمذی شریف کی شرح آٹھ جلدوں میں
اور بخاری شریف کی شرح بارہ جلدوں میں پوری ہوئی
اور چھوٹی چھوٹی چند کتابیں لکھی گئیں، پھر اللہ رب
العالمین نے توفیق ارزاں فرمائی، چھٹی جلد کا کام شروع
ہوا اور یہ بہت اچھا ہوا کہ اسرارِ شریعت اوراحادیثِ نبویہ
پر تفصیلی اور گہری نظر ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ
نے اپنی کتاب کا کام شروع کروایا؛ چنانچہ چھٹی جلد کے نصف سے
تفسیر کا نہج قدرے تبدیل ہوا، ہر مضمون کے لیے ”عنوان“ کا اضافہ
فرمایا، ساوتیں جلد میں اور بھی نکھار پیدا ہوا؛
پہلے آیت کا مضمون پھر ترجمہ پھر عبارة النص کے مطابق تفسیر اور
”فائدہ“ کے عنوان سے اشارة النص اور دلالة النص کو ذکر کرنے لگے۔
اس تفسیر کی بہت بڑی
خصوصیت ربطِ آیات ہے، اکثر جگہوں پرمفسر مدظلہ نے محض اپنی قوتِ
تدبر سے ربط بیان فرمایاہے کہ کہیں بھی ترتیب ٹوٹتی
ہوئی نظر نہیں آتی، اس کے علاوہ آپ نے بخاری شریف میں
بھی ربط وترتیب پر بے مثال گفتگو فرمائی ہے۔ راقم الحروف
کو اس تفسیر میں یہ بات بہت پسند آتی ہے کہ آپ دوٹوک
انداز میں ایک بات بیان فرماتے ہیں، ”اگرمگر“ اور ”قیل
قال“ کے جنگل میں قاری کو نہیں لے جاتے، ہزاروں صفحات لکھنے کے
بعد زبان کا معیار بھی کافی بلند، شستہ اور شگفتہ ہے، متروک
الفاظ وتراکیب سے بالکل پاک وصاف انداز،زوائد سے منزہ ومبرا جملے بڑا لطف دیتے
ہیں۔ اگر مثالیں دی جائیں تو مضمون طویل
ہوجائے گا، قارئین پڑھیں اور سردُھنیں، نور وبشر کی بحث
اَوَّلُ ما خلق اللّٰہ نوري کی تحقیق، سایہٴ نبوی
کا ثبوت (۵/۲۴۴-۲۴۶)، یاجوج
وماجوج کے بارے میں بے سروپا روایات کی تحقیق (۵/۲۳۱-۲۳۷)
قیامت کے دن اعمال کے تلنے والی بحث(۳۹۸) سورئہ نور
کی بے نظیرتفسیر، اتنی عمدہ اور ایک مرکزی
عنوان میں داخل کہ قاری عش عش کرنے لگے۔
ز
فر ق تا
بہ قدم ہر کُجا کہ می نگرم
کرشمہ
دامنِ دل می کشد کہ جا ایں جا است
الحمدللہ! آٹھ جلدوں میں تفسیر
پوری ہوئی؛ لیکن حضرت نے غور فرماکر دوبارہ ازسرنو لکھنا شروع
فرمایا ہے، چودہویں پارہ تک ان شاء اللہ اسی نہج پر مکمل فرمائیں
گے جو اَب آپ نے اپنایا ہے، اس میں عوام کے ساتھ اور علماء کی
بھی رعایت ہے؛ چنانچہ پہلی جلد طباعت سے آراستہ ہوگئی ہے۔
نئی جلدوں میں آیات کی مقدار پچھلی جلدوں کی
طرح برابر ہے؛ تاکہ جو قاری نئی لینا چاہے لے لے اور جو پرانی
لینا چاہے لے لے، کمی بیشی نہ ہو۔ اس میں
ربطِ آیات کو واضح فرماکر آپ نے عناوین لگائے ہیں، اس انداز کو
پڑھ کر قرآنِ پاک نہایت ہی مرتب معلوم ہونے لگتا ہے، مثلاً حضرت نے جو
عناوین لگائے ہیں وہ یہ ہیں، سورہ بقرہ میں ”ہدایت،
توحید، رسالت، آخرت، بنواسرائیل، بنو اسماعیل، تحویلِ
قبلہ، ردِشرک، اعمالِ اسلام، حج، نماز، پچیس احکام ”جو خاص مصالح پر مبنی
ہیں، جہاد“ وغیرہ اس کے حواشی، مفردات کے معانی اور بھی
عمدہ ہیں، ایک خاص بات یہ ہے کہ آپ اقوال اور عبارت آرائی
میں قارئین کو نہیں اُلجھاتے، تفسیر کا جو احتمال اختیار
کرتے ہیں اسے قطعیت کے ساتھ لکھتے ہیں، دل گواہی دینے
لگتا ہے کہ اس کا صحیح ترین مفہوم یہی ہے۔
غرض یہ کہ ”ہدایت القرآن“ آج
کے نئے دور کے مزاج کے مطابق نہایت ہی عمدہ تفسیر ہے، کتابت
طباعت، کاغذ اور ٹائٹل ہرلحاظ سے قارئین کے لیے اس میں کشش کا
سامان موجود ہے۔
=====================
(۲)
نام
کتاب : فتاویٰ محمدی مع شرح دیوبندی
تالیف : حضرت
مولانا سیداصغرحسین میاں صاحب محدث دارالعلوم دیوبند
تخریج
احادیث مع اضافہ عنوانات: جناب
مولانا خورشیدحسن قاسمی، دارالعلوم دیوبند
صفحات : ۲۰۸ قیمت: ۲۰۰ روپے
ناشر : واصف
کمپیوٹر سینٹر دیوبند
تعارف
نگار : مولانا اشتیاق احمد
اسلام کی بنیاد وحی پر
ہے، قرآنِ پاک وحی متلو ہے اور احادیث غیرمتلو، کبھی تو
وحی اللہ تعالیٰ بلا انتظار نازل فرماتے تھے اور کبھی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتظار رہتا تھا، مثلاً کوئی
سُوال کرتا اوراس کا جواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ ہوتا تو
وحی کا انتظار فرماتے تھے، نزول کے بعدجواب بتادیتے تھے، اگر حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کے پاس جواب موجود ہوتا تھا تو برجستہ بلاتاخیر رہنمائی
فرما دیتے تھے، اِن سوال وجواب کو ”استفتاء اور فتویٰ“ سے بھی
تعبیر کیا جاسکتا ہے، اس طرح کی نصوص کو فتاویٰ کے
عنوان سے بعض موٴلفین نے جمع فرمایا ہے، ابن جوزیہ کی
”فتاویٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ اور ابن خلیفہ
کی ”موسوعہ فتاویٰ النبی صلی اللہ علیہ وسلم“
اسی طرح عقائد،حج اور وضو وغیرہ کے فتاویٰ کو بہت سے
لوگوں نے جمع فرمایا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے محدثِ عظیم،
حضرت تھانوی کے معاصر دسیوں کتابوں کے مصنف حضرت اقدس مولانا سید
اصغرحسین میاں صاحب رحمة اللہ علیہ نے بھی ڈیڑھ سو
سے زائد سوال وجواب کو جمع فرمایا ہے، عربی عبارت کے ساتھ اس کا ترجمہ
اور تشریح بھی رقم فرمائی ہے، حوالہ ہرجگہ موجود ہے؛ تاکہ قارئین
کو اطمینان ہو، حضرت نے حاشیہ پر استفتاء پیش کرنے والے صحابی
کا نام بھی لکھ دیا ہے؛ البتہ جہاں نام معلوم نہیں وہاں صرف راوی
کا نام ہے،اخیر میں بعض ایسے سوال کے جواب بھی ہیں
جو صحابہ وتابعین نے دیے ہیں، حضرت کی زبان بہت رواں دواں
اور سلیس ہے، آپ کی تشریح نے اسے عام اردو خواں حضرات کے لیے
قابلِ استفادہ بنادیاہے، عوام کو پیشِ نظر رکھنے کی وجہ سے باریک
اور پیچیدہ مسائل کو نہیں چھیڑا ہے، اس میں فقہ حنفی
کے اکثر مسائل ایسے ہیں جن سے کسی بھی اہل السنة والجماعة
کو اختلاف نہیں، شرح ووضاحت میں متداول اور معتمد کتابوں کی طرف
رجوع کیاگیا ہے، یہ مجموعہ آپ نے جون پور کی مسجد اٹالہ میں
مرتب فرمایا ہے، جمع کرنے میں کسی خاص ترتیب کا لحاظ نہیں
کیاگیا ہے (ص۲۶) قارئین فہرست دیکھ کر
استفادہ کرسکتے ہیں۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس سے کیا
جاسکتا ہے کہ یہ کتاب چار مرتبہ ہندوپاک میں طبع ہوکر ہاتھوں ہاتھ لی
گئی ہے، ان شاء اللہ یہ ایڈیشن بھی قارئین کی
بارگاہ میں شرفِ قبول حاصل کرے گا۔
$$$
----------------------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ10 ، جلد:101،
محرم-صفر 1439 ہجری
مطابق اکتوبر 2017ء